ناول کورونا وائرس اور قیمتی مہلت کا ضیاع
پاکستان سمیت دنیا بھر میں ناول کورونا وائرس کے تیزی سے بڑھتے ہوئے کی کیسز اور شرح اموات میں خطرناک حد تک اضافے نے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ کیا واقعی دنیا نے اس مہلک ترین وائرس کے خلاف چین کی فراہم کردہ قیمتی مہلت ضائع کردی؟
اس سوال کے پس پردہ چند حقائق ہیں جن سے آگاہی لازم ہے۔ دسمبر 2019 کے اواخر میں چین کے صوبہ ہوبے اور ووہان شہر میں ناول کورونا وائرس کے کیس سامنے آنا شروع ہوئے۔ چین نے جنوری 2020 کے آغاز میں ہی عالمی ادارہ صحت اور امریکا سمیت دیگر اہم ممالک کے ساتھ وائرس (پیتھوجن) سے متعلق بنیادی معلومات کا فوری تبادلہ کیا تاکہ دنیا کو آنے والے خطرے سے خبردار کیا جا سکے۔ 23 جنوری کو چین نے ووہان کو مکمل طور پر بند کردیا تاکہ اندرون چین سمیت دیگر دنیا میں لوگوں کی آمدورفت روکی جا سکے اور ووہان کو ناول کورونا وائرس کا مرکز قرار دیتے ہوئے فوری اقدامات کا آغاز کیا گیا۔
اس سارے عرصے کے دوران چند مغربی ممالک نے ووہان کی بندش کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا گیا جبکہ ’’لاک ڈاؤن‘‘ کا یہی ماڈل آج دنیا بھر میں انتہائی مؤثر قرار دیتے ہوئے نافذالعمل ہے۔ سوال یہ ہے کہ ووہان کی بندش کے بعد تقریباً دو ماہ کے عرصے میں دنیا کو جو اقدامات کرنے چاہیے تھے، کیا انہیں اہمیت دی گئی؟
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ایک جانب یورپ ناول کورونا وائرس کا نیا مرکز بن چکا ہے، چین کے بعد اٹلی دوسرا اور امریکا تیسرا ایسا ملک ہے جو کورونا وائرس ’’کووِڈ 19‘‘ سے شدید متاثرہ ہیں۔ دوسری جانب چین میں انسداد وبا کی بہتر صورتحال اور مثبت پیش رفت کے بعد معمولات زندگی بحال ہورہے ہیں۔ ووہان میں 18 مارچ سے مسلسل پانچ روز تک ’’زیرو کیس‘‘ کے بعد 23 مارچ کو صرف ایک نیا کیس سامنے آیا ہے۔ تازہ ترین پیش رفت یہ بھی ہے کہ چینی حکام نے 8 اپریل سے ووہان کے شہریوں کو بیرون شہر سفر کی اجازت دے دی ہے جبکہ صوبے ہوبے کے دیگر شہروں کےلیے 25 مارچ سے تمام سفری پابندیاں اٹھائی جارہی ہیں۔ ووہان سے باہر سفر کرنے والے شہریوں کو خصوصی ہیلتھ کوڈ جاری کیے جائیں گے تاکہ منظم ریکارڈ برقرار رکھا جا سکے۔
تاحال صوبے بھر میں تعلیمی سرگرمیوں کے دوبارہ آغاز سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔ ووہان اور صوبے ہوبے کے دیگر علاقوں میں فعال 42000 سے زائد طبی عملے کی اپنے آبائی علاقوں کو واپسی جاری ہے جو اس بات کا مظہر ہے کہ ووہان اور صوبہ ہوبے کورونا وائرس کے خلاف عوامی جنگ جیت چکے ہیں۔
غور طلب بات یہ ہے کہ دیگر دنیا سے غلطی کہاں ہوئی؟ یا اگر یوں کہا جائے کہ انہوں نے لازمی اقدامات میں تاخیر کردی تو بے جا نہ ہوگا۔ چین کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کی روشنی میں یہ لازم تھا کہ ہر ملک اپنے اپنے قومی تقاضوں کے مطابق اقدامات کرتا، الگ سے مخصوص اسپتالوں کا قیام، مسافروں کی محدود نقل و حرکت، عوامی مقامات پر جامع اسکریننگ کا نظام، ناول کورونا وائرس سے متعلق عوام میں آگاہی کا فروغ، یہ وہ تقاضے تھے جن پر ’’سختی‘‘ سے عمل پیرا ہونا ضروری تھا۔ لیکن لگتا یہی ہے کہ یا تو دنیا نے ناول کورونا وائرس کے دائرہ کار کو صرف چین تک محدود سمجھتے ہوئے اپنی آنکھیں بند کرلیں یا پھر انہیں اپنے طبی نظام پر ناز تھا کہ کسی بھی صورتحال سے بخوبی نمٹ لیں گے۔
Comments
Post a Comment
Your feedback is our key to improve.